پاکستان میں چھاتی کے کینسر میں اضافہ

پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں خواتین میں چھاتی کے کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے اوراب یہ اضافہ تشویش ناک صورت اختیار کر گیا ہے۔

سورج کی شعائیں بھی کینسر کا سبب بن سکتی ہیں

کینسر ریسرچ فاؤنڈیشن آف پاکستان کی تحقیق کے مطابق اس کے بہت سے دیگر عوامل کے علاوہ خواتین میں انتہائی تنگ زیر جاموں کا استعمال بھی ہے۔

اس ادارے کی بانی اور ورلڈ انسٹیوٹ آف ایکالوی اینڈ کینسر کی ایشیا کی صدر ڈاکٹر خالدہ عثمانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین چاہے وہ پڑھی لکھی ہیں یا غیر تعلیم یافتہ انہیں اپنی صحت کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے بقول خواتین اپنی جسامت سے بہت کم سائز کے برئزیر پہنتی ہیں جس سے ان کی چھاتیاں مسلسل گھٹی رہتی ہیں اور اندر زخم بن جاتے ہیں جو کہ خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق ’تنگ برئزیر ہی نہیں بلکہ فوم، نائلون اور خاص طور پر کالے رنگ کی برئزیر بھی چھاتی کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ کالا رنگ سورج سے کچھ ایسی خطرناک شعائیں جذب کرتا ہے جو انسانی جلد اور خاص طور پر چھاتی کی جلد کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں‘۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق اب تو پوری دنیا میں اس بات کا شعور خواتین میں اجاگر ہو رہا ہے کہ جسامت سے کم سائز کے زیر جامہ پہننے سے وہ بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر خالدہ عثمانی نے خواتین کو مشورہ دیا کہ رات کو بریزیر اتار کر سونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول ایسا نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔

چھاتی کے کینسر کا علاج ابتدائی مراحل میں ممکن ہے اور نہ صرف مریضہ کی چھاتی اور جان بچائی جا سکتی ہے بلکہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتی ہے۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی

انہوں نے کہا کہ سفید یا جلد کے رنگ جیسی کاٹن کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی زیر جامہ استعمال کرنی چاہیے اور اس کی صفائی کا بہت خیال کرنا چاہیے۔چھاتی کے اوپر قمیض بھی ڈھیلی ہونی چاہیے وگرنہ دونوں چھاتیوں کے گھٹ جانے سےان کے درمیان پھوڑے بن جاتے ہیں جو بعد ازاں خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی نے چھاتی کے کینسر کے دیگر عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق اور مشاہدے کے مطابق ان خواتین میں چھاتی کے کینسر کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جو کثیر الاولاد ہوتی ہیں جبکہ جن خواتین کے دو یا تین بچے ہوں ان میں کینسر کا مرض کافی کم دیکھا گیا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کینسر ہونے کا ایک بڑا سبب ہے اور ڈاکٹر خالدہ کے مطابق بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی بھی دیگر کینسرز کی طرح چھاتی کے کینسر کے مریض بڑھنے کی ایک وجہ ہے۔اس کے علاوہ جو خواتین ایسی جگہوں کے قریب رہتیں ہیں جہاں کیمائی اجزاء کا اخراج ہوتا ہے انہیں بھی چھاتی کے کینسر کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ فصلوں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال اور گھروں میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات بھی کینسر میں اضافے کا سبب ہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے بقول پاکستانی خواتین بالعموم خود سے زیادہ اپنے شوہر اور بچوں کی غذا کا خیال رکھتی ہیں لیکن خود اپنی غذا بہتر نہیں رکھتیں جس سے وہ دوسری کئی بیماریوں کی طرح کینسر کا شکار بھی ہو سکتیں ہیں اس لیے متوازن غذا بھی بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر خالدہ کے مطابق وہ خواتین جو ڈپریشن کا شکار رہتیں ہیں ان میں چھاتی کا کینسر ان خواتین کی نسبت زیادہ دیکھا گیا ہے جو خوش رہتیں ہیں۔ ان کے مطابق’چھاتی کے کینسر کا علاج ابتدائی مراحل میں ممکن ہے اور نہ صرف مریضہ کی چھاتی اور جان بچائی جا سکتی ہے بلکہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتی ہے‘۔

ڈاکٹر خالدہ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ چھاتی میں ہونے والی کسی بھی معمولی تبدیلی کو بھی خواتین کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ڈاکٹر خالدہ کے بقول پاکستان میں اچھے خاصے پڑھے لکھے خاندان کی خواتین بھی شرم کے سبب کسی کو اپنی چھاتی میں ہونے والی بیماری کے بارے میں نہیں بتاتیں جس سے ان کا مرض بڑھ جاتا ہے اس کے علاوہ جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ خواتین اس ڈر سے کہ کہیں ان کی چھاتی کاٹ نہ دی جائے ڈاکٹروں کی بجائے حکیموں کے پاس چلی جاتیں ہیں جس سے ان کا کینسر اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ ان کا بچنا ممکن نہیں رہتا۔ان کا کہنا تھا کہ چھاتی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق ’جدید دور میں اگرچہ زندگی گزارنے کے طریقوں اور فضائی آلودگی کے سبب کینسر کے مرض میں اضافہ ہوا ہے لیکن جدید دور میں ہونے والی کئی طبی تحقیقات کے سبب کینسر کا علاج کسی حد تک ممکن ہے اور مریض کی لمبی زندگی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

ان میں سے ایک طریقہ ای ایم ٹیکنالوجی کہلاتا ہے جس میں مریضہ کو اینٹی آکسیڈنٹ دیے جاتے ہیں۔یہ دوا قدرے چیزوں سے کشید کی گئی ہے اور اسے جاپان نے سب سے پہلے تیار کیا۔ یہ دوا مریض کی قوت مدافعت بڑھاتی ہے اور جب کسی مریضہ کے چھاتی کے کینسر کا آپریشن کر دیا جائے تو یہ دوا دینے سے اس میں دوبارہ کینسر بننے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ دوا جسم میں موجود نقصان دہ مادے کو ختم کر کے قوت مدافعت بڑھاتی ہے۔

Leave a comment