The Meaning of Al-Fatihah and its Various Names

This Surah is called Al-Fatihah, that is, the Opener of the Book, the Surah with which prayers are begun. It is also called, Umm Al-Kitab (the Mother of the Book), according to the majority of the scholars. In an authentic Hadith recorded by At-Tirmidhi, who graded it Sahih, Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said,

«الْحَمْدُ للهِ رَبَ الْعَالَمِينَ أُمُّ الْقُرْآنِ وَأُمُّ الْكِتَابِ وَالسَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ»

 

(Al-Hamdu lillahi Rabbil-`Alamin is the Mother of the Qur’an, the Mother of the Book, and the seven repeated Ayat of the Glorious Qur’an.)

It is also called Al-Hamd and As-Salah, because the Prophet said that his Lord said,

«قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ:الْحَمْدُدِلله رَبِّ الْعَالَمِينَ، قَالَ اللهُ: حَمِدَنِي عَبْدِي»

 

(`The prayer (i.e., Al-Fatihah) is divided into two halves between Me and My servants.’ When the servant says, `All praise is due to Allah, the Lord of existence,’ Allah says, ‘My servant has praised Me.’)

Al-Fatihah was called the Salah, because reciting it is a condition for the correctness of Salah – the prayer. Al-Fatihah was also called Ash-Shifa’ (the Cure).

This Surah is called Al-Fatihah, that is, the Opener of the Book, the Surah with which prayers are begun. It is also called, Umm Al-Kitab (the Mother of the Book), according to the majority of the scholars. In an authentic Hadith recorded by At-Tirmidhi, who graded it Sahih, Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said,

«الْحَمْدُ للهِ رَبَ الْعَالَمِينَ أُمُّ الْقُرْآنِ وَأُمُّ الْكِتَابِ وَالسَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ»

(Al-Hamdu lillahi Rabbil-`Alamin is the Mother of the Qur’an, the Mother of the Book, and the seven repeated Ayat of the Glorious Qur’an.)

It is also called Al-Hamd and As-Salah, because the Prophet said that his Lord said,

«قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ:الْحَمْدُدِلله رَبِّ الْعَالَمِينَ، قَالَ اللهُ: حَمِدَنِي عَبْدِي»

(`The prayer (i.e., Al-Fatihah) is divided into two halves between Me and My servants.’ When the servant says, `All praise is due to Allah, the Lord of existence,’ Allah says, ‘My servant has praised Me.’)

Al-Fatihah was called the Salah, because reciting it is a condition for the correctness of Salah – the prayer. Al-Fatihah was also called Ash-Shifa’ (the Cure).

It is also called Ar-Ruqyah (remedy), since in the Sahih, there is the narration of Abu Sa`id telling the the story of the Companion who used Al-Fatihah as a remedy for the tribal chief who was poisoned. Later, the Messenger of Allah said to a Companion,

«وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ»

(How did you know that it is a Ruqyah)

Al-Fatihah was revealed in Makkah as Ibn `Abbas, Qatadah and Abu Al-`Aliyah stated. Allah said,

[وَلَقَدْ ءاتَيْنَـكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي]

(And indeed, We have bestowed upon you the seven Mathani) (seven repeatedly recited verses), (i.e. Surat Al-Fatihah) (15:87). Allah knows best.

There is no disagreement over the view that Al-Fatihah contains seven Ayat. According to the majority of the reciters of Al-Kufah, a group of the Companions, the Tabi`in, and a number of scholars from the successive generations, the Bismillah is a separate Ayah in its beginning. We will mention this subject again soon, if Allah wills, and in Him we trust.

یہ ٹوپی باز !

جس طرح عالم ہونا خوبی ہے، اسی طرح ایک جید جاہل ہونا بھی ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہے۔ ہفتے بھر پہلے میں نے ایک پاکستانی چینل پر دو جیدوں کی پونے دو منٹ کی گفتگو دیکھی اور سنی۔ جس سے اندازہ ہوا کہ صدرِ مملکت آصف زرداری نے کابل میں صدر حامد کرزئی کی تقریبِ حلف برداری میں سندھی ٹوپی پہن کر سندھ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ صدرِ مملکت چونکہ وفاق کی علامت ہیں اس لیے انہیں بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے علاقائی لباس کی بجائے قومی لباس اور ٹوپی زیبِ تن کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

میں اب تک سمجھتا تھا کہ سندھ ایک وفاقی اکائی ہے اور اس ناطے وہاں کا لباس اور ٹوپی بھی وفاقی ثقافت کا حصہ ہے۔ لیکن دونوں جئیدین کی گفتگو سے پتا چلا کہ سندھ پاکستان میں شامل نہیں بلکہ نائجیریا یا انڈونیشیا یا بولیویا کا حصہ ہے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کوئی فوجی آمر وردی پہن کر بیرونِ ملک جائے تو یہ فوجی کارڈ کھیلنا نہیں کہلائے گا۔ اگر کوئی صدر یا وزیرِ اعظم تھری پیس سوٹ اور ٹائی میں غیر ملکی دورے پر جائے تو یہ مغربی کارڈ کھیلنے کے مترادف نہیں ہوگا۔ کوئی حکمران اگر شلوار قمیض پہن کر ریاض ایرپورٹ پر اترے تو یہ پنجابی، پختون، سندھی یا سرائیکی یا بلوچ کارڈ تصور نہیں ہوگا لیکن سندھی ٹوپی پہننے سے وفاقی روح کو اچھا خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایسے ہی ٹوپی بازوں نے پاجامہ کرتا پہن کر قرار دادِ لاہور پیش کرنے میں پیش پیش بنگالیوں کو شلوار، شیروانی اور جناح کیپ پہننے سے انکار کے جرم میں ملک بنتے ہی ‘پاکستانیت’ کے دائرے سے باہر نکال دیا تھا۔ ان ہی عالی دماغ تنگ نظروں نے سینتیس برس پہلے سندھی کو صوبائی زبان کا درجہ دیے جانے پر ‘اردو کا جنازہ ہے، زرا دھوم سے نکلے’ کا نعرہ لگا کر پورے سندھ کو آگ اور خون میں جھونکنے کا اہتمام کرنے کی کوشش کی تھی۔

اگر ان میڈیائی مجتہدین کا بس چلے تو وہ محمد علی جناح کی ایسی تمام تصاویر اتروا دیں جن میں وہ کھلا لکھنوی پاجامہ یا چوڑی دار پاجامہ پہن کر ہندوستانی کارڈ اور قراقلی ٹوپی پہن کر بلوچ کارڈ اور فیلٹ ہیٹ پہن کر برطانوی سامراجی کارڈ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ علامہ اقبال کی ایسی تمام تصاویر نذرِ آتش کروا دیں جن میں وہ تہبند میں ملبوس پنجابی کارڈ یا پھندنے والی لال ٹوپی پہن کر ٹرکش کارڈ کھیل رہے ہیں۔

ان ٹوپی ڈرامہ بازوں کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جب سندھ اسمبلی میں قرار دادِ الحاقِ پاکستان منظوری کے لیے پیش ہوئی تھی تو بیشتر مسلمان ارکانِ اسمبلی نے سندھی ٹوپی پہن کر اس کی تائید کی تھی۔ انہیں غالباً یہ خبر بھی نہیں پہنچی کہ فی زمانہ سندھی ٹوپی سندھ سے زیادہ جنوبی پنجاب، صوبہ سرحد، بلوچستان اور افغانستان میں پہنی جاتی ہے۔

تو کیا ہمارے گھروں کی ٹی وی سکرینوں پر تاریخ اور ثقافتی جغرافیے سے نابلد خوخیاتے بندر استرا لہراتے ہوئے ایسے ہی ٹوپی ڈرامہ کرتے رہیں گے؟

یہ دیس ہوا بیگانہ!

مجھے اس وقت جنرل ضیا الحق کے عقوبت خانے کے تین کردار یاد آرہے ہیں۔

ملیر کا ناصر بلوچ ۔۔۔آخری رات کال کوٹھڑی میں ‘چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ’ گاتا رہا۔ جب تختہ دار پر لے جایا جارہا تھا تو اس نے باقی قیدیوں کو قسم دی کہ اگر جئے بھٹو کے نعرے کا جواب نہ دیا تو یہاں تو میں تمہارا کچھ نہیں کرسکوں گا لیکن اوپر تم سب کا گریبان پکڑ کر خوب ماروں گا ۔ناصر بلوچ ایک قدم بڑھاتا، رقص کرتا، جئے بھٹو کا نعرہ لگاتا پھر دوسرا قدم بڑھاتا۔۔۔۔۔

لیاری کا ایاز سموں۔۔۔۔۔جب پھانسی سے پہلے آخری ملاقات آئی تو اسکی بھاوج نے اسے گھونگھرو دئیے۔ پھانسی گھاٹ پر روانگی سے پہلے جیل حکام نے آخری خواہش پوچھی تو کہا گھونگھرو باندھنے دو۔ جب تک رات کے سناٹے میں آگے بڑھتے قدموں سے گھونگھرو بجنے کی آواز آتی رہی کوٹھڑیوں میں بند قیدی جئے بھٹو کے نعرے لگاتے رہے۔ جب گھونگھرو کی آواز تھم گئی تو قیدی بھی اپنی اپنی سسکیوں میں ڈوب گئے۔۔۔۔۔
لاہور کا عثمان غنی۔۔۔۔۔آخری ملاقات میں عثمان نے اپنی بہنوں سے کہا۔کوئی نہیں روئے گا۔میرا جنازہ بینڈ باجے کے ساتھ کھلی چارپائی پر گھر تک جائے گا۔عثمان کی لاش گھر پہنچی تو بینڈ باجے کی دھمک نے استقبال کیا۔ بہنیں چارپائی کو کندھا دے کر گھر میں لے گئیں۔
یقین نہیں آتا کہ ایک ڈکٹیٹر کے منہ پر تھوکنے والے ایسے پاگل دیوانے عشاق کی پارٹی ایک اور ڈکٹیٹر کے دئیے گئے این آر او کی زنجیر ٹوٹنے پر ملول ہے ؟

یقین نہیں آتا کہ پھانسی کے بعد تیسری دفعہ اقتدار میں آنے والی جماعت ذوالفقار علی بھٹو کے ری ٹرائیل میں ناکام ہوگئی۔

یقین نہیں آتا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے دو برس بعد بھی ایف آئی آر کےنامعلوم ‘معلوم’ میں تبدیل نہ ہو سکے۔

کاش ناصر بلوچ کا نام رحمان ملک، ایاز سموں بابر اعوان اور عثمان غنی کا نام فاروق نائیک ہوتا!!

‘کیا امریکی سودائی ہیں’

یہ خبر تو آپ نے سن ہی لی ہوگی کہ ایک اطالوی عدالت نے امریکی سی آئی اے کے تئیس اور اطالوی خفیہ کے دو ایجنٹوں کو ایک مصری عالم ابو عمر کو اطالوی شہر میلان سے اغوا کر کے مصر منتقل کرنے کے جرم میں تین سے آٹھ برس تک قید اور دو دو ملین یورو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

اگرچہ مجرم قرار دیے گئے امریکی ایجنٹ بہت پہلے اٹلی چھوڑ کر اپنے ملک جا چکے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں لاقانونیت کو لگام دینے کے تعلق سے مذکورہ فیصلے کی زبردست علامتی اہمیت بتائی جا رہی ہے۔

مگر اس اطالوی عدالتی کے فیصلے سے ‘بے وفائی’ اور ‘احسان فراموشی’ کی بو بھی آ رہی ہے کیونکہ امریکہ وہ ملک ہے جس نے دوسری عالمی جنگ میں اٹلی کو مسولینی کے فاشزم سے نجات دلوائی اور بعد ازاں جنگ زدہ اٹلی کی تعمیرِ نو کے لیے مارشل پلان کے تحت کروڑوں ڈالر کی امداد دی۔ امریکی سی آئی اے نے سرد جنگ کے دوران اٹلی کو کیمونسٹوں کے سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو بھاری رقوم فراہم کیں۔ ناٹو میں اٹلی کو شامل کیا گیا اور اس یارِ وفادار پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے چھٹے امریکی بحری بیڑے کا ہیڈ کوارٹر اطالوی ساحلی شہر نیپلز میں قائم کیا گیا۔ جبکہ اطالوی عدلیہ نے امریکہ کے تاریخی لگاؤ اور محبت کا صلہ سی آئی اے کے تئیس ایجنٹوں کو سزا سنا کر دیا۔

اٹلی سے تو کہیں اچھا پاکستان ہے جس نے نہ صرف امریکہ کو یکطرفہ طور پر اڈے دیے، سرد جنگ میں سرخوں کے خلاف امریکہ کا رضاکارانہ اتحادی بنا۔ افغان جنگ میں روس کو شکست دینے کے لیے سی آئی اے کے لیے نہ صرف اپنے گھر کے دروازے بلکہ کھڑکیاں اور روشن دان تک کھول دیے۔ امریکہ نے جتنی بھی امداد دی اسے صبر شکر کے ساتھ دعا دیتے ہوئےقبول کرلیا۔ رمزی یوسف سے ایمل کانسی تک اور افغان سفیر ملا ضعیف سے عافیہ صدیقی تک امریکہ نے جس جس پاکستانی یا غیر پاکستانی کو مجرم جانا اسے نمک خواروں نے خود اغوا کر کے منہ پر نقاب پہنا، ڈنڈا ڈولی کر جہاز پر چڑھایا۔ سینکڑوں لوگوں کو غائب کروا دیا گیا۔ بلکہ یہاں تک اہتمام کیا کہ کوئی پاکستانی ادارہ یا عدالت کسی مغربی پر بالعموم اور امریکی پر بالخصوص ہاتھ نہ ڈالے چاہے وہ بلا اجازت پاکستان کے کسی بھی حصے میں جاکر کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی شخص سے ملے یا حساس مقامات کی تصاویر بنائے یا سادہ کپڑوں میں پاکستان کی سڑکوں پر اسلحہ لے کر دندنائے ۔

اگر کسی سرپھرے نے اسٹیبلشمنٹ کی توجہ اس جانب لانے کی کوشش بھی کی تو انشا جی کے شعر میں (تھوڑا سا تصرف کرتے ہوئے) یہ کہہ کر سمجھا دیا گیا

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، جو لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم ‘امریکہ’ کا نام نہ لو، کیا ‘امریکی’ سودائی ہیں!

کیسا کوپن کہاں کا ہیگن!

ماحولیاتی ابتری سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک نے کوپن ہیگن میں سات دسمبر سے جاری کانفرنس سے قبل دنیا کے باوسیلہ ممالک اور اداروں کی توجہ اپنی ماحولیاتی زبوں حالی کی جانب مبذول کرانے کے لیے طرح طرح کی دلچسپ کوششیں کیں۔ جیسے مالدیپ کی کابینہ کا زیرِ آب اجلاس ہوا، اور نیپال کی کابینہ نے ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ پر اپنا کانپتا ہانپتا اجلاس کیا۔

پاکستان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا شمار ماحولیاتی زبوں حالی کے سب سے زیادہ شکار بیس ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔ لیکن کوپن ہیگن میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر جس طرح کا اطمینان پاکستانی میڈیا اور حکومتی حلقوں میں پایا جا رہا ہے وہ ہمیشہ کی طرح قابلِ داد ہے۔

توقع ہے کہ ایک سو سے زائد ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت کانفرنس کے حتمی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ جبکہ پندرہ ہزار کے لگ بھگ مندوبین اور ہزاروں صحافی اس کے علاوہ ہیں۔

لیکن اب تک کانفرنس کی کوریج کے لیے کوپن ہیگن میں صرف ایک پاکستانی فری لانسر خاتون انگریزی صحافی موجود ہیں اور وہ بھی وہاں ماحولیات و میڈیا کے اشتراک سے متعلق ایک سکالر شپ کے طفیل ہیں۔ بقول ان کے اس وقت کوپن ہیگن میں سرکاری افسروں، این جی او کارکنوں اور ڈنمارک کے سفارتخانے کی فنڈنگ سے کچھ نوجوانوں سمیت جو چھبیس رکنی پاکستانی وفد کوپن ہیگن میں موجود ہے اس کی قیادت دفترِ خارجہ کے ایک افسر کر رہے ہیں۔ جبکہ وزیرِ ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں طے نہیں ہے کہ ان میں سے کون کوپن ہیگن جائے گا یا نہیں جائے گا۔ اس معاملے میں دفترِ خارجہ سے لے کر کوپن ہیگن میں پاکستانی سفارتخانے تک سب خاموش ہیں۔

صرف ایک پاکستانی چینل نے اب تک یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہمالیہ کے گلیشیرز کتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور سیاچن گلیشیر پاکستان اور بھارت کی فوجی سرگرمیوں کے سبب کیسے آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا اور اخباری فرنٹ پیجز پر کانفرنس کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو ہونا باقی ہے۔ اب تک تو ٹی وی چینلز اور اخبارات پر حسبِ معمول این آر او، بم دھماکے، رحمان ملک، بلوچستان اور کرپشن چھائے ہوئے ہیں۔ باقی جگہ موبائیل فون کے اشتہارات نے گھیر رکھی ہے۔ اس فضا میں کیسا کوپن اور کہاں کا ہیگن!

انڈیا میں ہر تیسرا شخص غریب

ہندوستان میں حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ ایک کمیٹی کے رپورٹ کے مطابق ملک کا ہر تیسرا شخص غریت کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب حال ہی میں پارلیمنٹ میں ایک بحث میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملک میں کتنے غریب ہیں حکومت کے پاس اس کے بارے میں صحیح اعداد و شمار نہیں ہے۔ رپورٹ کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان ترقی کی راہ پر ہے لیکن غریبوں کی تعداد میں اضافے کی خبر اسکے لیے نئے چیلنجز کھڑے کردے گی۔ دلی سے خدیجہ عارف کی رپورٹ

پاکستان میں چھاتی کے کینسر میں اضافہ

پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں خواتین میں چھاتی کے کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے اوراب یہ اضافہ تشویش ناک صورت اختیار کر گیا ہے۔

سورج کی شعائیں بھی کینسر کا سبب بن سکتی ہیں

کینسر ریسرچ فاؤنڈیشن آف پاکستان کی تحقیق کے مطابق اس کے بہت سے دیگر عوامل کے علاوہ خواتین میں انتہائی تنگ زیر جاموں کا استعمال بھی ہے۔

اس ادارے کی بانی اور ورلڈ انسٹیوٹ آف ایکالوی اینڈ کینسر کی ایشیا کی صدر ڈاکٹر خالدہ عثمانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین چاہے وہ پڑھی لکھی ہیں یا غیر تعلیم یافتہ انہیں اپنی صحت کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے بقول خواتین اپنی جسامت سے بہت کم سائز کے برئزیر پہنتی ہیں جس سے ان کی چھاتیاں مسلسل گھٹی رہتی ہیں اور اندر زخم بن جاتے ہیں جو کہ خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق ’تنگ برئزیر ہی نہیں بلکہ فوم، نائلون اور خاص طور پر کالے رنگ کی برئزیر بھی چھاتی کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ کالا رنگ سورج سے کچھ ایسی خطرناک شعائیں جذب کرتا ہے جو انسانی جلد اور خاص طور پر چھاتی کی جلد کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں‘۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق اب تو پوری دنیا میں اس بات کا شعور خواتین میں اجاگر ہو رہا ہے کہ جسامت سے کم سائز کے زیر جامہ پہننے سے وہ بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر خالدہ عثمانی نے خواتین کو مشورہ دیا کہ رات کو بریزیر اتار کر سونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول ایسا نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔

چھاتی کے کینسر کا علاج ابتدائی مراحل میں ممکن ہے اور نہ صرف مریضہ کی چھاتی اور جان بچائی جا سکتی ہے بلکہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتی ہے۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی

انہوں نے کہا کہ سفید یا جلد کے رنگ جیسی کاٹن کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی زیر جامہ استعمال کرنی چاہیے اور اس کی صفائی کا بہت خیال کرنا چاہیے۔چھاتی کے اوپر قمیض بھی ڈھیلی ہونی چاہیے وگرنہ دونوں چھاتیوں کے گھٹ جانے سےان کے درمیان پھوڑے بن جاتے ہیں جو بعد ازاں خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی نے چھاتی کے کینسر کے دیگر عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق اور مشاہدے کے مطابق ان خواتین میں چھاتی کے کینسر کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جو کثیر الاولاد ہوتی ہیں جبکہ جن خواتین کے دو یا تین بچے ہوں ان میں کینسر کا مرض کافی کم دیکھا گیا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کینسر ہونے کا ایک بڑا سبب ہے اور ڈاکٹر خالدہ کے مطابق بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی بھی دیگر کینسرز کی طرح چھاتی کے کینسر کے مریض بڑھنے کی ایک وجہ ہے۔اس کے علاوہ جو خواتین ایسی جگہوں کے قریب رہتیں ہیں جہاں کیمائی اجزاء کا اخراج ہوتا ہے انہیں بھی چھاتی کے کینسر کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ فصلوں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال اور گھروں میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات بھی کینسر میں اضافے کا سبب ہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے بقول پاکستانی خواتین بالعموم خود سے زیادہ اپنے شوہر اور بچوں کی غذا کا خیال رکھتی ہیں لیکن خود اپنی غذا بہتر نہیں رکھتیں جس سے وہ دوسری کئی بیماریوں کی طرح کینسر کا شکار بھی ہو سکتیں ہیں اس لیے متوازن غذا بھی بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر خالدہ کے مطابق وہ خواتین جو ڈپریشن کا شکار رہتیں ہیں ان میں چھاتی کا کینسر ان خواتین کی نسبت زیادہ دیکھا گیا ہے جو خوش رہتیں ہیں۔ ان کے مطابق’چھاتی کے کینسر کا علاج ابتدائی مراحل میں ممکن ہے اور نہ صرف مریضہ کی چھاتی اور جان بچائی جا سکتی ہے بلکہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتی ہے‘۔

ڈاکٹر خالدہ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ چھاتی میں ہونے والی کسی بھی معمولی تبدیلی کو بھی خواتین کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ڈاکٹر خالدہ کے بقول پاکستان میں اچھے خاصے پڑھے لکھے خاندان کی خواتین بھی شرم کے سبب کسی کو اپنی چھاتی میں ہونے والی بیماری کے بارے میں نہیں بتاتیں جس سے ان کا مرض بڑھ جاتا ہے اس کے علاوہ جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ خواتین اس ڈر سے کہ کہیں ان کی چھاتی کاٹ نہ دی جائے ڈاکٹروں کی بجائے حکیموں کے پاس چلی جاتیں ہیں جس سے ان کا کینسر اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ ان کا بچنا ممکن نہیں رہتا۔ان کا کہنا تھا کہ چھاتی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں۔

ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق ’جدید دور میں اگرچہ زندگی گزارنے کے طریقوں اور فضائی آلودگی کے سبب کینسر کے مرض میں اضافہ ہوا ہے لیکن جدید دور میں ہونے والی کئی طبی تحقیقات کے سبب کینسر کا علاج کسی حد تک ممکن ہے اور مریض کی لمبی زندگی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

ان میں سے ایک طریقہ ای ایم ٹیکنالوجی کہلاتا ہے جس میں مریضہ کو اینٹی آکسیڈنٹ دیے جاتے ہیں۔یہ دوا قدرے چیزوں سے کشید کی گئی ہے اور اسے جاپان نے سب سے پہلے تیار کیا۔ یہ دوا مریض کی قوت مدافعت بڑھاتی ہے اور جب کسی مریضہ کے چھاتی کے کینسر کا آپریشن کر دیا جائے تو یہ دوا دینے سے اس میں دوبارہ کینسر بننے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ دوا جسم میں موجود نقصان دہ مادے کو ختم کر کے قوت مدافعت بڑھاتی ہے۔