یہ ٹوپی باز !

جس طرح عالم ہونا خوبی ہے، اسی طرح ایک جید جاہل ہونا بھی ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہے۔ ہفتے بھر پہلے میں نے ایک پاکستانی چینل پر دو جیدوں کی پونے دو منٹ کی گفتگو دیکھی اور سنی۔ جس سے اندازہ ہوا کہ صدرِ مملکت آصف زرداری نے کابل میں صدر حامد کرزئی کی تقریبِ حلف برداری میں سندھی ٹوپی پہن کر سندھ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ صدرِ مملکت چونکہ وفاق کی علامت ہیں اس لیے انہیں بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے علاقائی لباس کی بجائے قومی لباس اور ٹوپی زیبِ تن کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

میں اب تک سمجھتا تھا کہ سندھ ایک وفاقی اکائی ہے اور اس ناطے وہاں کا لباس اور ٹوپی بھی وفاقی ثقافت کا حصہ ہے۔ لیکن دونوں جئیدین کی گفتگو سے پتا چلا کہ سندھ پاکستان میں شامل نہیں بلکہ نائجیریا یا انڈونیشیا یا بولیویا کا حصہ ہے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کوئی فوجی آمر وردی پہن کر بیرونِ ملک جائے تو یہ فوجی کارڈ کھیلنا نہیں کہلائے گا۔ اگر کوئی صدر یا وزیرِ اعظم تھری پیس سوٹ اور ٹائی میں غیر ملکی دورے پر جائے تو یہ مغربی کارڈ کھیلنے کے مترادف نہیں ہوگا۔ کوئی حکمران اگر شلوار قمیض پہن کر ریاض ایرپورٹ پر اترے تو یہ پنجابی، پختون، سندھی یا سرائیکی یا بلوچ کارڈ تصور نہیں ہوگا لیکن سندھی ٹوپی پہننے سے وفاقی روح کو اچھا خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایسے ہی ٹوپی بازوں نے پاجامہ کرتا پہن کر قرار دادِ لاہور پیش کرنے میں پیش پیش بنگالیوں کو شلوار، شیروانی اور جناح کیپ پہننے سے انکار کے جرم میں ملک بنتے ہی ‘پاکستانیت’ کے دائرے سے باہر نکال دیا تھا۔ ان ہی عالی دماغ تنگ نظروں نے سینتیس برس پہلے سندھی کو صوبائی زبان کا درجہ دیے جانے پر ‘اردو کا جنازہ ہے، زرا دھوم سے نکلے’ کا نعرہ لگا کر پورے سندھ کو آگ اور خون میں جھونکنے کا اہتمام کرنے کی کوشش کی تھی۔

اگر ان میڈیائی مجتہدین کا بس چلے تو وہ محمد علی جناح کی ایسی تمام تصاویر اتروا دیں جن میں وہ کھلا لکھنوی پاجامہ یا چوڑی دار پاجامہ پہن کر ہندوستانی کارڈ اور قراقلی ٹوپی پہن کر بلوچ کارڈ اور فیلٹ ہیٹ پہن کر برطانوی سامراجی کارڈ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ علامہ اقبال کی ایسی تمام تصاویر نذرِ آتش کروا دیں جن میں وہ تہبند میں ملبوس پنجابی کارڈ یا پھندنے والی لال ٹوپی پہن کر ٹرکش کارڈ کھیل رہے ہیں۔

ان ٹوپی ڈرامہ بازوں کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جب سندھ اسمبلی میں قرار دادِ الحاقِ پاکستان منظوری کے لیے پیش ہوئی تھی تو بیشتر مسلمان ارکانِ اسمبلی نے سندھی ٹوپی پہن کر اس کی تائید کی تھی۔ انہیں غالباً یہ خبر بھی نہیں پہنچی کہ فی زمانہ سندھی ٹوپی سندھ سے زیادہ جنوبی پنجاب، صوبہ سرحد، بلوچستان اور افغانستان میں پہنی جاتی ہے۔

تو کیا ہمارے گھروں کی ٹی وی سکرینوں پر تاریخ اور ثقافتی جغرافیے سے نابلد خوخیاتے بندر استرا لہراتے ہوئے ایسے ہی ٹوپی ڈرامہ کرتے رہیں گے؟

Leave a comment